STORIES for CHILDREN by Sister Farida(www.wol-children.net) |
|
Home عربي |
Home -- Urdu -- Perform a PLAY -- 129 (Shabola from South Africa) This page in: -- Albanian -- Arabic? -- Armenian -- Aymara -- Azeri -- Bengali -- Bulgarian -- Cebuano -- Chinese -- English -- Farsi -- French -- Fulfulde -- German -- Greek -- Guarani -- Hebrew -- Hindi -- Indonesian -- Italian -- Japanese -- Kazakh -- Korean -- Kyrgyz -- Macedonian -- Malayalam? -- Platt (Low German) -- Portuguese -- Punjabi -- Quechua -- Romanian -- Russian -- Serbian -- Slovene -- Spanish-AM -- Spanish-ES -- Swedish -- Swiss German? -- Tamil -- Turkish -- Ukrainian -- URDU -- Uzbek
!ڈرامے – اِن کو دوسرے بچوں کے سامنے بھی پیش کیجیے 921. جنوبی افریقہ سے شبولا (ہتھوڑے کی آواز) شبولا: ’’مجھ سے شرط لگا لیں اِس سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ آہ! آہ! یہ میرا پیر تھا۔‘‘ والد: ’’اب سے تمہیں ہتھوڑا پکڑنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ تھوڑا سا آرام کر لو اور پھر تم اپنے پیروں پر کھڑے ہونا تاکہ یہ جھونپڑی بنا سکو۔‘‘ شبولا چھاؤں میں بیٹھ گیا۔ کچھ فاصلے پر اُسے بندر کے چِلّانے کی آواز آئی۔ اُ س کے باپ نے جھونپڑیاں بنانے کا کام جاری رکھا جنوبی افریکہ میں۔ کیا وہ اِتنی اچھی ہونگی جتنی گاؤں کے اندر مشنری سکول میں تھیں؟ والد: ’’شبولا، دوبارہ کام شروع کر دو۔‘‘ اُس کو اپنے والد کی مدد کرنے میں مزہ آ رہا تھا، لیکن اُس کو سکول جانے میں اِس سے بھی زیادہ مزہ آتا تھا۔ وہ اگلے دن صبح اپنا بیجوں سے اور مونگ پھلی کے مکھن سے بنا ناشتہ کر کے سکول جانے کے لیے نکل گیا۔ اُس کو اَمفندِس پسند تھی، یہ زمبابوے کی زبان میں ’’اُستانی‘‘ کے لیے نام ہے۔ سب بچے اُسے پسند کرتے تھے۔ شبولا کو اپنی مذہبی کلاس بہت پسند تھی۔ جس میں وہ کالے پیچدار بالوں والاچھوٹالڑکا بہت غور سے سُنا کرتا تھا۔ اُستانی: ’’ایک چھوٹی بھیڑ بھاگ کر دور چلی گئی اور کھو گئی۔ چرواہے نے باقی کے غلے کو چھوڑا اور اُس کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے میں لگ گیا جب تک وہ ملی نہیں۔ اُس نے اِسے کانٹوں والی جھاڑیوں سے نکالا اور اٹھا کر واپس گھر لے گیا۔ خُداوند یسوع اچھا چرواہا ہے۔ شبولا: ’’اَمفندِس، مَیں بھی کھوئی ہوئی بھیڑ ہوں۔ کیا یسوع مجھے بھی ڈھونڈ رہا ہو گا؟‘‘ اُستانی: ’’جی ہاں، وہ آپ کو بھی ڈھونڈ رہا ہے کیونکہ وہ آپ کو پیار کرتا ہے۔ آپ اُسے بتا سکتے ہیں جب آپ کا اُس سے تعلق رکھنے کا دل کرے۔‘‘ ایک دن شبولا اپنی جماعت سے غائب تھا۔ وہ اُس دن اپنے بستر سے نکلنا چاہتا تھا، لیکن اُسے بہت سخت بخار تھا اور اُسے بہت چکر آرہے تھے۔ والدہ: ’’شبولا، تمہیں بہت سخت بخار ہے۔ میں چڑیلوں کے ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں۔‘‘ شبولا (کمزور آواز میں): ’’وہ میری مدد نہیں کر سکتا۔‘‘ شبولا بہت بیمار تھا اور بڑی مشکل سے بات کر پا رہا تھا۔ اِتوار کو اُس کی اُستانی اُس کو ملنے آئی۔ اُستانی: ’’شبولا، تم بہت بیمار ہو۔ اگر وقت آ پہنچا ہو تو کیا تم مرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘ شبولا: ’’خُداوند یسوع میرا چرواہا ہے۔ وہ جلد ہی مجھے آسمان پر لے جائے گا۔‘‘ شبولا نے اپنی آنکھیں بند کیں اور پھر دوبارہ اُنہیں کبھی نہ کھولا۔ اُس کے جنازے پر، اَمفندِس نے اچھے چرواہے کی کہانی سنائی۔ اچانک سے اُس کا والدچھوٹے تابوت کے سامنے گھُٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور دعا کی۔ والد: ’’خُداوند یسوع، اب شبولا تیرے ساتھ ہے۔ وہ وہاں بہت اچھی جگہ ہو گا۔ مَیں بھی تجھ سے تعلق رکھنا چاہتا ہوں۔ میرے گناہوں کو معاف کر دےاور میرا اچھا چرواہا بن جا۔ آمین۔ لوگ: بیان کرنے والی، والد، والدہ، شبولا، اُستانی جملہ حقوق محفوظ ہیں: سی ای ایف جرمنی |