Home -- Urdu -- Perform a PLAY -- 090 (The angry teacher 2)
!ڈرامے – اِن کو دوسرے بچوں کے سامنے بھی پیش کیجیے
بچوں کے سامنے پیش کرنے والے ڈرامے
09. غصے والا اُستاد ۲
بٹو: ’’جلدی، رِنگو، جلدی! تم یہ کر سکتے ہو!‘‘
رِنگو کا پاؤں اُسے شدید درددے رہا تھا۔ لیکن وہ خود کی پرواہ کیے بغیر بیلوں کی دوڑ کو جیتنا چاہتا تھا۔ اُ س نے لگاموں کوزور سے پکڑا، تیزی سے بھاگا اور کچھ بیل گاڑیوں سے آگےنکل گیا۔ اِختتامی لکیر سے کچھ ہی پہلے وہ سب سے پہلے نمبر پر تھا۔
بٹو: ’’وہ جیت گیا! رِنگو دوڑ جیت گیا!‘‘
بٹو خوشی ہے اُچھل پڑا۔ اور اُس کے والد کو اُس پرفخر تھا۔
رِنگو خوش تھا جب اُس کے بیلوں کے گلے میں ہار پہنائے گئے۔ وہ ہمت کے ساتھ درد کو برداشت کرتا رہا۔ لیکن گھر پر اُ س کے پاؤں کا برا حال ہو گیا۔ وہ درد سے کانپ رہاتھا۔ رِنگو کےسر میں درد تھا اور اُسے بخار بھی ہو گیا۔
والدہ: ’’دہلیز پر لیٹ جاؤ رِنگو۔ دیکھو سفید غیر ملکی اور پانڈو ہمارے گاؤں میں آ رہے ہیں۔‘‘
رِنگو: ’’مَیں اُسے جانتا ہوں۔ وہ ہمیشہ اچھے خدا کے بارےمیں بات کرتا رہتا ہے جس نے اپنا بیٹا اِس دنیا میں بھیجا۔‘‘
صاحب گروُب: ’’ہم کنویں پر کچھ تصویریں دکھانے والے ہیں۔ آپکو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ کیا آپ آئیں گے؟‘‘
والدہ: ’’مجھےمعاف کیجیے، لیکن ہم نہیں آ سکتے۔ ہمارا بیٹا بہت بیمار ہے۔ چڑیلوں کا ڈاکٹر بھی اُ س کی مدد نہیں کر سکا۔ کیاآپ مدد کر سکتےہیں؟‘‘
جب غیر ملکی رِنگو کا پاؤں دیکھ رہا تھا تو بہت سےلوگ اُسےدیکھ رہے تھے۔
صاحب گروُب: ’’ہاں، مَیں مدد کر سکتا ہوں۔ مجھےصرف ایک برتن میں گرم پانی کی ضرورت پڑےگی۔ اور پھر مَیں اِس میں سے تھوڑا سا سفوف اِس میں ڈالوں گا، اوریہ حل ہو جائےگا۔ اور بخار ٹھیک ہو جائےگا۔ رِنگو اپنا پاؤں پانی کے اندر ڈالو۔ دوائی سےتمہارا پاؤں ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘
رِنگو: ’’کیا پورا ڈالوں؟‘‘
صاحب گروُب: ’’ہاں بالکل، ڈرو مت۔ مَیں تمہارےلیے دعا کرنےلگا ہوں: خُداوند یسوع، تو سب کچھ کرسکتاہے۔ مہربانی سے رِنگو کےپاؤں کو شفا بخش اور اِس گھر کی حفاظت کر۔ آمین۔‘‘
علاج اور دعا کا اثر ہوا۔ جلد ہی، رِ نگو پھر سے سکول گیا۔ رِنگو وہ صفحہ لے کر آیا جو مشنری صاحب گروُب نےاُس کو دیا تھا۔ اُس کے اُستاد کو یہ پسند نہیں تھا۔
اُستاد: ’’کیا بدتمیزی ہے۔ یہ صفحہ مسیحیوں کے خدا کے بارےمیں بتاتا ہے۔ ہم بھارتی اِس پر یقین نہیں کرتے۔ اگلی بار کسی سے بھی اِس قسم کا کاغذ نا لینا۔ سمجھ گئے تم؟‘‘
اُس نے وہ کاغذ اپنےہاتھ میں مروڑکر کونےمیں پھینک دیا۔ لیکن رِنگو چالاک تھا۔ اُس دن وہ سب سے آخرمیں سکول سے نکلا، اور آپ ضرور بوجھ سکتے ہیں کہ اُس نےاپنی پگڑی میں کیا چھپایا ہوگا۔
رِنگو: ’’بٹو، کاش مَیں مسیحیوں کے خُدا کے بارے میں کچھ اور سن سکتا۔‘‘
بٹو: ’’کیا تم بھول گئےہوکہ ہمارے اُستادنےکیاکہا ہے؟ اگر تم اُن کی بات نہیں مانو گے تو بدروحیں تمہیں کھا جائیں گی۔‘‘
رِنگو: ’’اُنہوں نےصاحب کو تو نہیں کھایا۔ مَیں یہ کاغذاپنے پاس ہی رکھوں گا۔‘‘
بٹو: ’’مجھےڈر لگ رہا ہے۔‘‘
اِس کے بعد چھوٹےگاؤں میں مہمان آئے۔
مَیں اگلے ڈرامےمیں آپ کو اِس کےبارے میں سب کچھ بتاؤں گی۔
لوگ: بیان کرنےوالی، رِنگو، بٹو، والدہ، صاحب گروُب، اُستاد
جملہ حقوق محفوظ ہیں: سی ای ایف جرمنی