STORIES for CHILDREN by Sister Farida(www.wol-children.net) |
|
Home عربي |
Home -- Urdu -- Perform a PLAY -- 131 (The death penalty for God’s Son) This page in: -- Albanian -- Arabic? -- Armenian -- Aymara -- Azeri -- Bengali -- Bulgarian -- Cebuano -- Chinese -- English -- Farsi -- French -- Fulfulde -- German -- Greek -- Guarani -- Hebrew -- Hindi -- Indonesian -- Italian -- Japanese -- Kazakh -- Korean -- Kyrgyz -- Macedonian -- Malayalam? -- Platt (Low German) -- Portuguese -- Punjabi -- Quechua -- Romanian -- Russian -- Serbian -- Slovene -- Spanish-AM -- Spanish-ES -- Swedish -- Swiss German? -- Tamil -- Turkish -- Ukrainian -- URDU -- Uzbek
!ڈرامے – اِن کو دوسرے بچوں کے سامنے بھی پیش کیجیے 131. خُدا کے بیٹے کے لیے موت کی سزاانصاف کرنے والا چاہتا تھا کہ موت کی سزا سنائے۔ موت کی سزا دینے والا تیار تھا۔ اور خُداوند یسوع کو اُس کے دشمنوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اُنہوں نے اُس پر تھوکا، خُدا کے بیٹے کے منہ پر تھپڑ مارے اور اُسے کوڑے مارے۔ مارنے سے ہمیں کسی اور کی جگہ پر سزا یاد آتی ہے۔ یسوع بالکل بھی اِن چیزوں کا حقدار نہیں تھا۔ وہ کسی بھی بات کے لیے گنہگار نہیں تھا۔ اِس کے باوجود بھی اُسے سب سے بُرے طریقے سے سزا دی گئی۔ اُس نے اپنی زخمی اور خون بہتی ہوئی کمر پر لکڑی کی بھاری صلیب اُٹھائی اور یروشلیم کی گلیوں میں سے گزرا۔ شہر کے باہر ایک پہاڑی پر جس کا نام گلگتہ تھا، ظالم سپاہیوں نےوہاں اُسے کیل ٹھونک کردوڈاکوؤں کے درمیان صلیب پر لٹکا دیا گیا، ایک اُس کی دائیں طرف تھااور دوسرا اُس کی بائیں طرف تھا۔ صلیب پر مرنا بہت درد ناک تھا۔ یسوع کے سر میں درد ہوئی، بہت زیادہ پیاس بھی لگی اور سانس بھی لینا مشکل ہو گیا۔ وہ خوف ذدہ تھا۔ اور اُس کے دشمنوں نے اُس کا مزاق بھی اُڑایا۔ مزاق اُڑانے والا: ’’اوئے، اگر تو سچ میں خُدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے نیچے اُتر آ۔‘‘ سپاہی: ’’اگر تو یہودیوں کا بادشاہ ہے تو خود کو بچا لے۔‘‘ اگر یسوع اپنے آپ کو بچانا چاہتا تو وہ آسمان پر سے زمین پر ہی نہ آتا۔ وہ اِس مقصد کے لیے آیا، کہ ہمیں بچا سکےکیونکہ وہ ہمیں پیار کرتا ہے۔ یسوع تو اپنے دشمنوں سے بھی پیار کرتا ہے۔ یسوع: ’’اے باپ اِنہیں معاف کر کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کرتے ہیں۔‘‘ ذرا سوچیں تین صلیبیں۔ یسوع درمیان میں، اُس کے دائیں اور اُس کی بائیں ہاتھ پر ڈاکو۔ یہ منظر کچھ ایسا نہیں نظر آتا کہ یسوع اِن دونوں ڈاکوؤں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا رہا ہو؟ ڈاکو (طعنہ دینےوالی آواز سے): ’’کیا تُو مسیح نہیں؟ تُو اپنے آپ کو اور ہم کو بچا۔‘‘ قاتل: ’’خاموش ہو جاؤ۔ کیا تُو خُدا کو بھول گیا ہے؟ ہم تو گنہگار ہیں کیو نکہ گناہ کیا ہے، ہمیں تو سزا ملنی چاہیے، لیکن اِس نے تو کچھ غلط کیا بھی نہیں ہے۔ اَے یسوع، جب تو اپنی بادشاہی میں داخل ہو تو مجھے یاد رکھنا۔‘‘ یسوع: ’’مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں: کہ آج ہی تو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا۔‘‘ قاتل نے اپنا گناہ قبول کیا۔ اور اِسی وجہ سے وہ آسمان پر جا سکتا تھا۔ وہ ٹھیک تھا: ہم سب گنہگار ہیں۔ لیکن یسوع ہمیں معاف کرتا ہے، اور وہ ہمیشہ گنہگاروں کے لیے ہاتھ پھیلائے رہتا ہے۔ پھر سے سوچیں تین صلیبیں۔ یسوع درمیان میں، اُس کے دائیں اور اُس کے بائیں ہاتھ پر مجرم۔ ایک نے یسوع پر بھروسہ کیا، اور دوسرے نے اُس کا مزاق اُڑایا۔ ایک بچ گیا، دوسرا نہ بچ سکا۔ آپ کس طرف کھڑے ہیں؟ یسوع آپ کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ اُس کا پیار آپ کی خطاؤں سے بڑا ہے۔ لوگ: بیان کرنے والی، مزاق اُڑانے والا، سپاہی، یسوع، قاتل، ڈاکو جملہ حقوق ،محفوظ ہیں: سی ای ایف جرمنی |