STORIES for CHILDREN by Sister Farida(www.wol-children.net) |
|
Home عربي |
Home -- Urdu -- Perform a PLAY -- 119 (Dani fell 3) This page in: -- Albanian -- Arabic? -- Armenian -- Aymara -- Azeri -- Bengali -- Bulgarian -- Cebuano -- Chinese -- English -- Farsi -- French -- Fulfulde -- German -- Greek -- Guarani -- Hebrew -- Hindi -- Indonesian -- Italian -- Japanese -- Kazakh -- Korean -- Kyrgyz -- Macedonian -- Malayalam? -- Platt (Low German) -- Portuguese -- Punjabi -- Quechua -- Romanian -- Russian -- Serbian -- Slovene -- Spanish-AM -- Spanish-ES -- Swedish -- Swiss German? -- Tamil -- Turkish -- Ukrainian -- URDU -- Uzbek
!ڈرامے – اِن کو دوسرے بچوں کے سامنے بھی پیش کیجیے 911. ڈینی گِرا ۳دادی نے باورچی خانے والی گھڑی کی طرف دیکھا۔ ڈینی کو ابھی تک گھر آجانا چاہیے تھا۔ وہ خاموشی سے دعا کر رہی تھی جب انیتا اوراُس کا والد پہاڑ پراُسے تلاش کرنے کےلیے چڑھ رہے تھے۔ والد: ’’ڈینی! ڈینی، کیا تم ہمیں سن سکتے ہو؟‘‘ انیتا: ’’ابو، ضرور لوقس نے اُس کے ساتھ کچھ کیا ہوگا۔ مَیں بھاگ کر جاتی ہوں اور اُس سے پوچھتی ہوں۔‘‘ انیتا بھاگتی ہوئی پڑوسی کے گھر گئی اور پھر گودام میں گئی۔ جنگلی بلی کی طرح وہ سیڑھی پر چڑھی اور لوقس کو دھر لیا، جو کہ رو رہا تھا۔ انیتا: ’’ڈینی کہاں ہے؟ تم نے اُس کی ساتھ کیا کِیا ہے؟‘‘ لوقس: ’’مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہے۔ یہ میری غلطی نہیں تھی۔‘‘ انیتا: ’’تمہاری کیا غلطی نہیں تھی؟ مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے ورنہ مَیں پولیس کو بلاؤں گی۔‘‘ لوقس: ’’ڈینی مر چکا ہے۔‘‘ انیتا کا چہرہ بری طرح سفید ہو گیا۔ پھر وہ لوقس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہوئی گئی جو اُسے اُس نالے کے پاس لے گیا جہاں ڈینی گِرا تھا۔ والد رسی کی مدد سے اُس تنگ دراڑ میں اُترا۔ اور ڈینی اُسے پتھر کی سِل کے اوپر لیٹا ہوا ملا اُس کی ٹانگ بری طرح ٹوٹی ہوئی تھی۔ والد: ’’ڈینی زندہ ہے! وہ بالکل نیچے نہیں گرا اور پانی میں نہیں ڈوبا۔‘‘ انیتا نے اپنے والد کو اُس تنگ راستےمیں سے ڈینی کے ساتھ باہر آتے دیکھا، بلکہ اُس نےبلی کے بچے کو بھی بچا لیا۔ خُدا نے ڈینی کی زندگی بچا لی۔ لیکن ہسپتال میں اس کی اچھی دیکھ بھال کی وجہ سے وہ صرف بے ساکھیوں کی مدد سے چل سکتاتھا۔ انیتا: ’’لوقس قصور وار ہے!‘‘ کیا انیتا ٹھیک تھی؟ وہ لوقس سے نفرت کرتی تھی اور وہ اور بھی زیا دہ سے زیادہ اُداس ہو گئی۔ اُس کے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی اِن باتوں کے لیے جو اُس کے والد رات کو بائبل سےپڑھ کرسناتے تھے۔ اُسے اِس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ یسوع سب کو پیار کرتا ہے اور ہمیں ہمارے حسد کے لیے معاف بھی کرےگا۔ معاف؟ نہیں۔ وہ تو بدلہ لینا چاہتی تھی۔ ایک دن، انیتا کو اپنے پڑوسیوں کے دروازے پر بہت ہی خوبصورت تراشا ہوا چھوٹا گھوڑا ملا۔ اُس نے اُس کے گردن کے بالوں اور کھُروں کی بہت تعریف کی۔ وہ بہت ہی زبردست بنایا ہوا تھا۔ انیتا: ’’میرا نہیں خیال کہ لوقس اِس کے قابل تھا۔ وہ ضرور سکول کے مقابلے میں پہلا انعام جیتنا چاہتا ہے۔ لیکن مَیں یہ ہونے نہیں دوں گی۔‘‘ (لکڑی کی زمین پرگرنے کی آواز، پیروں سے روندنے کی آواز) ایک تھپڑ مار کر اُس نے وہ فن پارہ زمین پر گرادیا اور اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اُسے روند روند کر۔ اُس کے دل میں بہت زیادہ حسد تھا جو اُس وقت باہر آیا۔ انیتا جانتی تھی کہ اُس کی تنگ دِلی غلط تھی، لیکن اُس نےسوچا: لوقس مجھ سےبھی زیادہ برا ہے۔ وہ خاموشی سے وہاں سےنکل گئی۔ اور اگلا ڈرامہ آپ کو بتائے گا کہ اُس کے بعد کیا ہوا۔ لوگ: بیان کرنے والی، والد، انیتا، لوقس جملہ حقوق محفوظ ہیں: سی ای ایف جرمنی |