STORIES for CHILDREN by Sister Farida(www.wol-children.net) |
|
Home عربي |
Home -- Urdu -- Perform a PLAY -- 091 (Who is the thief 3) This page in: -- Albanian -- Arabic? -- Armenian -- Aymara -- Azeri -- Bengali -- Bulgarian -- Cebuano -- Chinese -- English -- Farsi -- French -- Fulfulde -- German -- Greek -- Guarani -- Hebrew -- Hindi -- Indonesian -- Italian -- Japanese -- Kazakh -- Korean -- Kyrgyz -- Macedonian -- Malayalam? -- Platt (Low German) -- Portuguese -- Punjabi -- Quechua -- Romanian -- Russian -- Serbian -- Slovene -- Spanish-AM -- Spanish-ES -- Swedish -- Swiss German? -- Tamil -- Turkish -- Ukrainian -- URDU -- Uzbek
!ڈرامے – اِن کو دوسرے بچوں کے سامنے بھی پیش کیجیے 19. چور کون ہے ۳جب سفید غیر ملکی نے ایک ڈبے میں سے جیپ میں تار لگائی تو رِنگو اور بٹو بڑے شوق سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک سفید دیوار کو لگایا گیا۔ بھارت کے اُس چھوٹےگاؤں میں لوگوں کےلیے ہر چیز نئی تھی۔ اُنہوں نےاِس سےپہلے کبھی فلم نہیں دیکھی تھی۔ صاحب گروُب: ’’خُدا آپ سب کو پیار کرتاہے۔ اُس نے دنیا میں اپنا پیارا بیٹا بھیجا۔ اُس کا نام ہے یسوع۔ وہ ہماری طرح اِنسان بنا، گناہ کے بغیر۔ خُدا گناہ سے نفرت کرتا ہے اور موت کے ذریعے وہ سزادیتاہے۔ لیکن یسوع نے بغیر کسی قیمت کے یہ سزا اپنے ااوپر لےلی اور ہماری جگہ خود صلیب پر جان دےدی۔ خُدا نےپھر اُسے مردوں میں سے زندہ کر دیا۔ یسوع پر یقین کیجیے۔ پھر آپ بچ جائیں گے اور آسمان پر آپ کو گھر ملے گا۔‘‘ فلم ختم ہو گئی۔ پانڈو نے ایک چھوٹے باجے پر گیت بجایا، اور جو جو صاحب گروُب کے ساتھ بات کرنا چاہتاتھا وہ وہیں رکا۔ رِنگو: ’’صاحب، آپ اور کتنی دیر تک ہمارے ساتھ رکیں گے؟ مَیں آپ کے خُدا کے بارے میں اور سننا چاہتا ہوں۔‘‘ صاحب گروُب: ’’کل ہم گاڑی پر اگلے گاؤں جائیں گے۔ لیکن ہم ایک دوسرے سے دوبارہ ضرور ملیں گے۔‘‘ رِنگو اوربٹو کو اپنےگھر جانا تھا۔ لیکن جیپ میں پڑا باجا۔۔۔۔۔۔ کیا کوئی اُنہیں دیکھے گا تو نہیں؟ بجلی کی طرح تیزی سے اُنہوں نے وہ ڈبہ اُٹھایا اور اُس ساز کو لے کر وہ اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ انہوں نے اپنے چھپنے کے لیےایک پرا نے چھپر کا چناؤ کیا۔ اُن کی وہ رات بہت پریشانی میں گزری۔ صرف اُن کی غلط حرکتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اُنہیں لگڑ بگوں سے کھیتوں کی رکھوالی بھی کرنی پڑی ہوگی۔ چاند بہت روشن تھا۔ رِنگو: ’’بٹو، وہاں کچھ ہلچل ہو رہی ہے۔ ایک شیر۔ یہ یقیناً شیر ہی تھا۔ مَیں نے اُس کی آنکھوں کی چمک دیکھی تھی۔‘‘ بٹو: ’’کیا تم نے یہ خواب میں دیکھا ہے؟‘‘ رِنگو: ’’نہیں مَیں نے اصل میں اُسے دیکھا ہے۔‘‘ اگلی صبح پورا گاؤں اُ س خوفناک خبر کے بارے میں باتیں کررہا تھا۔ آدمی: ’’وہ شیر تھا۔ اِنسانوں کو کھانے والا شیر۔‘‘ عورت: ’’کیا؟ کب؟ کہاں؟‘‘ آدمی: ’’ساتھ والے گاؤں میں ایک آدمی پر شیر نے حملہ کیا تھا۔‘‘ رِنگو: ’’ہم نے بھی شیر دیکھا تھا۔‘‘ اتنا ہنگامہ مچا رہا! جب تک ایک پرانے شکاری نے اپنا اچھا مشورہ دیا۔ شکاری: ’’سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ایک بیل کو زَبح کیا جائے اور اُس کی لاش کو آج رات تالاب کے پاس رکھ دیا جائے۔ ہم بڑے درخت پر اپنے ہتھیار لےکر بیٹھ جائیں گے اور دیکھتے رہیں گے۔ بیل کے خون کی خوشبو سے شیر آئے گا۔ اور جب وہ آئے گا اور بیل کو کھانا شروع کرے گا، ہم اُسے گولی مار دیں گے۔‘‘ آدمی: ’’رِنگو، کیا تم ساتھ آؤ گے؟ ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔‘‘ وہ بڑا فخر محسوس کر رہا تھا کہ اُسے چُنا گیا ہے کہ وہ اُن کےساتھ شکار کرے۔ لیکن ساتھ ہی وہ گھبرایا بھی ہوا تھا۔ ایک شیر کاشکار کرنا بہت خطرناک کام ہے۔یہ خطرناک ہو سکتا ہے اگر۔۔۔۔۔۔ آپ بھی شکار پر ساتھ آسکتے ہیں اگلے ڈرامے میں۔ لوگ: بیان کرنے والی، صاحب گروُب، رِنگو، بٹو، شکاری، آدمی، عورت جملہ حقوق محفوظ ہیں: سی ای ایف جرمنی |