STORIES for CHILDREN by Sister Farida(www.wol-children.net) |
|
Home عربي |
Home -- Urdu -- Perform a PLAY -- 109 (Who is the thief) This page in: -- Albanian -- Arabic? -- Armenian -- Aymara -- Azeri -- Bengali -- Bulgarian -- Cebuano -- Chinese -- English -- Farsi -- French -- Fulfulde -- German -- Greek -- Guarani -- Hebrew -- Hindi -- Indonesian -- Italian -- Japanese -- Kazakh -- Korean -- Kyrgyz -- Macedonian -- Malayalam? -- Platt (Low German) -- Portuguese -- Punjabi -- Quechua -- Romanian -- Russian -- Serbian -- Slovene -- Spanish-AM -- Spanish-ES -- Swedish -- Swiss German? -- Tamil -- Turkish -- Ukrainian -- URDU -- Uzbek
!ڈرامے – اِن کو دوسرے بچوں کے سامنے بھی پیش کیجیے 901. چور کون ہےکاریگر کا گھرانہ دوپہر کا کھانا کھا رہا ہے۔ لیزا اور فیلِکس ابھی ابھی سکول سے آئے ہیں۔ہر کسی کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ لیکن آج اُنکی امی بہت سنجیدہ ہیں۔ اچانک سے اُنہوں نے ایک اُلجھن میں ڈال دینے والا سوال پوچھ لیا۔ والدہ: ’’یہ بہت عجیب بات ہے، لیکن کل صبح تک میرے بٹوے میں ۵۲ ڈالر موجودتھے۔ آج میں سودے کے لیے دوکان پر پیسے دینا چاہتی تھی، لیکن مَیں نہیں دے سکی کیونکہ سب پیسے گم ہو چکے تھے۔ کیا تم میں سے کسی نے یہ لیے ہیں؟ فیلِکس؟ یا پھر لیزا تم نے؟‘‘ فیلِکس: ’’لیکن امی، ہم چور نہیں ہیں۔‘‘ لیزا: ’’ہاں بالکل ہم نے آپ کے پیسے نہیں لیے۔‘‘ والدہ: ’’یہ بہت بری بات ہے، لیکن مجھے حیرانی ہو رہی ہے کہ پھر وہ پیسے گئے تو گئے کہاں۔‘‘ جب اُنہوں نے میز کو صاف کر دیا، تو فیلِکس اور لیزا اپنا گھر کاکام کرنے چلے گئے۔ لیکن لیزاکےساتھ اچھا نہ ہوا۔ بلکہ اُس کو محسوس ہونے لگا کہ وہ بہت بیمار ہے، کیونکہ وہی تھی جس نے وہ پیسے اپنی ماں کے بٹوے سے لیے تھے۔ لیزا: ’’کاش مَیں نے وہ پیسے نہ چرائے ہوتے۔ لیکن امی آخر کیوں مجھے نئے جھمکے لینے کے لیے پیسے نہیں دیتیں؟ اصل میں، مَیں نے وہ پیسے چرائے نہیں تھے ۔مَیں نے وہ پیسے اُدھار لیے تھے۔ مَیں کسی دن اُن کو واپس کر دوں گی۔‘‘ لیکن اِن خیالوں سے اُس کے ضمیر کو تسلی نہ ملی۔ کچھ ہی دیر پہلے اُنہوں نے چوری کے بارے میں بات کی تھی۔ بائبل کہتی ہے چوری کرنا گناہ ہے۔ اور گناہ ایک دیوار کی طرح ہے۔ یہ جدائیاں پیدا کردیتا ہے۔ لیزا کواِس بات کی مکمل سمجھ تھی۔ جب سے اُس نے پیسے لیے تھے تب سے اُس کی والدہ اور اُس کے درمیان دیوارکھڑی ہو گئی تھی۔ اور یہ دیواراُس کے اور یسوع کے درمیان بھی کھڑی تھی۔ لیزا اب اور بہانے نہیں بنا سکتی تھی۔ اوریہ سچ تھاکہ اُس نے کھانےکے وقت جو جھوٹ بولا اُسے اِس سے اور تکلیف ہونے لگی۔ اُس سارےدن میں اُس کےدل میں کوئی اطمینان یا خوشی نہیں تھی۔ اور اُس کو اُن جھمکوں کی بھی کوئی خوشی نہیں تھی جو اُس نے اپنے بسترکے نیچے چھِپا رکھے تھے۔ جب وہ اُس رات اپنے بسترپر سونے گئ تو وہ رونے لگ گئی۔ والدہ: ’’لیزا، کیابات ہے؟‘‘ لیزا: ’’مَیں ہی وہ ہوں جس نے آپ کے پیسے چرائے۔ اوراب، آپ مجھے پیار نہیں کریں گی۔‘‘ والدہ: ’’تمہارے لیے یہ ٹھیک نہیں ہے جوتم نےکیا۔ لیکن یہ ٹھیک ہے کہ تم نےہمت کی اور مجھے بتادیا اِس کےبارے میں۔ مَیں تمہیں معاف کرتی ہوں۔ تم اپنے وظیفے میں سے مجھے ۵۲ ڈالر واپس کر سکتی ہو۔ اورکیا تم یسوع سے بھی کہو گی کہ وہ تمہیں معاف کردے؟‘‘ لیزا: ’’جی ہاں۔ خُداوند یسوع، مَیں معافی مانگتی ہوں کہ مَیں نے پیسے چرائے۔ براہ مہربانی مجھےمعاف کردیجیے۔ مجھے پیار کرنے کےلیے شکریہ۔‘‘ لیزا کےکندھوں سے ایک بڑا بوجھ اُتر گیا۔ و ہ پھر سےخوش تھی۔ اور سب سے اچھی بات: امی اور خُداوند یسوع ابھی بھی اُسے پیار کرتے ہیں۔ لوگ: بیان کرنے والی، والدہ، لیزا، فیلِکس جملہ حقوق محفوظ ہیں: سی ای ایف جرمنی |